یاد ماضی
شیرولی خان اسیرؔ
میرے ہم پیشہ دوستوں میں کچھ صاحبان کو شکوہ ہے کہ ان کے شاگرد ان کا احترام نہیں کرتے یا ان کو بھول چکے ہیں۔ بعض اوقات جب میری ملاقات اپنے کسی شاگرد سے ہو جاتی ہے تو مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے، البتہ ایسے شاگرد ہزاروں میں ایک ہوتا ہے جس کے رویے سے سرد مہری ٹپکتی ہو اور جو استاد کے احسانات کو ان کی سرکاری ڈیوٹی قرار دے کر مسترد کردے۔ باقی کے نو سو ننانوے ایسے ملتے ہیں جیسے اپنے باپ سے مل رہے ہوں۔ استاد اچھا ہو یا برا ہو، استاد ہی ہوتا ہے اور وہ جب بھی اپنے کسی شاگرد سے ملتا ہے تو اسے دلی خوشی ہوتی ہے بشرطیکہ شاگرد زندگی میں کامیاب اور خوش نظر آجائے۔ اسی طرح خدا نا خواستہ شاگرد کی عملی زندگی ناکام ہو یا کسی پریشانی میں مبتلا ہو تو استاد کو دکھ ہوتا ہے۔ جس طرح ایک باپ اپنے نافرمان بچے کو بھی ناکام دیکھنا نہیں چاہے گا اس طرح استاد بھی اپنے کسی نا اہل شاگرد کو مشکلات کا شکار دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔ اپنے ایک شاگرد کی اعلےٰ کامیابی دیکھ کر یا سن کر استاد بھی اتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا اس کا سگا باپ یا ماں خوش ہوتی ہے۔ ماں باپ کا لالچ بھی ہوتا ہے کہ بچہ یا بچی آگے ترقی کرے گا تو والدین کو مالی منفعت پہنچائے گا۔ ان کے بڑھاپے کا اچھا سہارا بنے گا۔ استاد کی ایسی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ استاد کی مثال ایک ایسے باغبان کی ہوتی ہے جو پودا لگانے ، اس کی حفاظت، درست نشونما اور اسے پھل پھولوں سے لدا دیکھنے سے مطلب رکھتا ہے پھل کھانے سے نہیں۔ استاد بھی ہمارے معاشرے ہی کا فرد ہے۔ آسمان سے اتری کوئی مخلوق نہیں ہوتا۔ اس بے حسی کے دور میں اس کو تمام گناہوں سے ماؤرا دیکھنا معقول نہیں ہے۔ جہاں تک اس کے پیشے کا تعلق ہے، محترم حضرت آقبالؔ کے بقول یہ ایک صنعت گر ہے جو انسانی روح کی صنعت گری کرتا ہے۔ جس کا کام آدم زاد کو انسان میں بدلنا ہے جو مشکل ترین کام ہے۔ معاشرے کے اندر سب سے آہم ترین ذمے داری معلم یا استاد کی ہے۔ استاد کے ہاتھ میں خدا کی اشرف مخلوق کی تعلیم و تربیت کا کام ہے جو ایک مقدس امانت ہے۔ استاد ایک ایسا رہنما ہے جس کا کام صرف علمی رہنمائی اور تربیت ہی نہیں بلکہ بچے کی زندگی کے روحانی،مادی، عقلی اور جذباتی پہلووں کی تربیت بھی ہے۔ نیز اس سماج کے موروثی اقدار کو بچے کو منتقل کرنا بھی تعلیم و تربیت کے مقاصد میں شامل ہے۔ ایک فرد کی شخصیت کے ان جملہ پہلؤں کی ہمہ گیر اور متوزن تربیت کا نام تعلیم وتربیت ہے۔ اس لیے ہر استاد کی شخصیت میں ان خوبیوں کی تلاش رہتی ہے اور توقع رکھی جاتی ہے کہ استاد اپنے اندر علمی، روحانی اور سماجی لیڈر کی خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ استاد ایسے معاملات سے بچا رہے جو معاشرے کی نظر میں معیوب ہوں۔ استاد کی مثال سفید لباس کی ہے کہ جس پر معمولی دھبہ بھی فوراً دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ نا تجربہ پیشہ ورانہ زندگی میں کسی استاد کوان باتوں کا احساس نہ ہو، تاہم شعور کی پختگی کی منزلیں طے کرتے ہوئے یہ احساس ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لیے اپنی زاتی خامیوں سے اپنے شاگردوں کو بچانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اپنی سرکاری اورغیر سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران اساتذہ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تین باتوں پر زور دیتا رہا ہوں۔ اول یہ کہ خدا کی اشرف مخلوق کی تربیت ہمارے ہاتھ میں سب سے بڑی امانت ہے، اس میں خیانت سے ڈریں اگر تم کو یوم حشر کے سوال جواب پر ایمان ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ اگر آپ اپنے بچوں کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے شاگردوں کی پوری ایمانداری کے ساتھ تربیت کریں اور تیسری بات یہ تھی جیسا استاد ہو گا ویسا ہی شاگرد پیدا کرے گا یعنی شاگرد استاد کا عکس ہوتا ہے، اس لیے مثالی استاد بننے کی کوشش کریں تاکہ بہترین شاگرد پیدا کرسکیں۔ میرے ہمکار اساتذہ جنہوں نے میری باتوں پرعمل کیا وہ کامیاب استاد اور صدر معلم بن پائے ۔ وہ آج بھی میرے ساتھ رابطے میں ہیں اور رہنمائی چاہتے ہیں اور میں اپنے تجربات کی روشنی میں ان کو مشورے دیتا رہتا ہوں۔ استاد کا سب سے بڑا نقاد اس کا شاگرد ہی ہوتا ہے جس کا احساس بہتوں کو نہیں ہوتا۔۔ شاگرد جب با شعور ہو جاتا ہے تو جب بھی اپنے کسی استاد کو ملتا ہے یا اس کے بارے سوچتا ہے تو اس استاد کا کردار اس کے لا شعور سے شعورکے پردے پر جلوہ گر ہوجاتا ہے۔ تب یا تو اس استاد کے لیے احترام کا جذبہ شاگرد کے دل میں پیدا ہوتا ہے یا دل سے نفرت کی لہر اٹھتی ہے۔ اسے اپنی کوتاہیوں کا احساس بھی ہوتا ہے جن کا اظہار شاگرد اپنے سلوک کے ذریعے کرتا ہے۔ اگر کوئی شاگرد اپنے استاد سے بھاگتا ہے تو اس میں ستر پچھتر فیصد استاد کی غلطی ہوسکتی ہے۔ اگر استاد زیادہ شاگردوں کی نظروں میں اچھا ہے تو سمجھ لیں کہ استاد اچھا ہے یا تھا۔ جو چند شاگرد اس استاد کا احترام نہیں کرتے تو وہ شاگرد غلط ہو سکتے ہیں استاد نہیں۔ میں اپنے شاگردوں کے بارے میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں مجھے دیکھ کر آنکھیں چرانے والا کوئی نہیں۔ میں اپنی موروثی بھولنے کی عادت کے ہاتھوں مجبور شاگردوں کو بھول جاتا ہوں، لیکن میرے شاگرد مجھے نہیں بھولتے۔ ملتے ہی اپنا تعارف کرا دیتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہوں۔ یہاں ان ہزاروں شاگردوں میں سے ایک کی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ ایک دن ایک بہت ہی حسین و جمیل ، صاف ستھرے سوٹ میں ملبوس جوان مجھے ملا۔ بڑے ادب کے ساتھ سلام دعا ادا کی اور فوراً اپنا تعارف بھی کرادیا۔ میرے استفسار پر اپنے پیشے سے متعلق خبر میرے کان میں کہہ ڈالی جو دوسرے بندے نہیں سن پائے کیونکہ ان کا تعلق ایک حساس خفیہ ایجنسی سے تھا اور اپنے وضع قطع کے لحاظ سے ذمے دار عہدے پر تھا۔ وہ برخوردار اٹھارہ بیس سال پہلے ایک ہائر سکینڈری سکول میں میرا شاگرد رہ چکا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے خفیہ اداروں کے افراد اپنے آپ کو کسی صورت بھی دوسروں پر ظاہر نہیں کرتے۔ میرے استفسار پر وہ چھپا نہ سکا، اس لیے کانا پھوسی میں بتا دیا کہ اس کا تعلق ملک کی ایک خفیہ ادارے سے ہے۔ میں نے اسے قطعاً نہیں پہچانا تھا۔ اگر وہ مجھ سے ملنے اور تعارف کرنے میں پیش قدمی نہ کرتا تو مجھے اس بات کا کبھی علم نہ ہوتا کہ وہ میرا شاگرد رہ چکا ہے۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاگرد کے دل میں استاد کا احترام کس حد تک ہوتا ہے؟اس میں دو باتیں قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ شاگرد استاد کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا اور دوسرا یہ کہ شاگرد کو اپنے استاد پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ اسے رازدار بنانے میں تامل نہیں کرتا۔ یہی چیز استاد اور شاگرد کے رشتے کے تقدس کی نشانی ہے۔غور کرنے والے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس فرمان پر بھی غور کریں۔ ترجمہ: “جس نے ایک لفظ مجھے سکھایا گویا اس نے مجھے اپنا غلام بنایا”۔