ہمارا استاد آٹھ جماعت پاس ہے
شیرولی خان اسیر آج کے طالب علم کے لیے یہ موضوع مزاح سے کچھ زیادہ نہیں ہوسکتا۔ مزاح بھی ایسا کہ جو مکمل جھوٹ سے بنا ہو۔ البتہ آج سے ستاون آٹھاون سال پہلے اگر کوئی کہتا کہ بھئی دیکھو ہمارا استاد آٹھ جماعت پاس ہے تو اتنا ہی نا قابل یقین تھا جتنا کہ آج کہا جائے کہ ہمارے پرائمری سکول کے لیے پی ایچ ڈی استاد مقرر ہوا ہے۔ یہ وہ دور تھا کہ پرائمری سکولوں کے لیے پرائمری جماعت پاس استاد تک میسر نہیں تھے۔ گزشتہ تین سالوں سے میں سکول پڑھ رہا تھا، اس دوران جن اساتذہ سے میں نے پڑھا تھا ان کے بارے میں بعد میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ وہ پرائمری بھی پاس نہیں تھے۔ انہوں نے غیر رسمی طور پر لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔ جس طرح کہ میں نے اپنی پہلی تحریروں میں بتایا تھا کہ ایک استاد نے میرے والد صاحب کو پہلی جماعت میں مجھے داخل کرنے کی ترغیب دلا کر مجھے پرائمری سکول میراگرام سے اٹھوا کر پرائمری سکول بانگ میں داخل کروایا تھا جب کہ میں نے ابھی قاعدہ کا ایک تہائی حصہ بھی نہیں پڑھا تھا اور دوسرے استاد نے مجھے دوسری جماعت سے تیسری میں ترقی دلواکر مجھ سے ” شرینی” وصول کیا تھا اور مجھے مقروض کیا تھا۔ اسی استاد کے دور میں ہم بانگ کے چند با اثر لوگوں کی بھنگ ( چرس) کی فصل کاٹنے میں بھی استاد کے حکم سے حصہ لیا تھا۔ یہ غیر رسمی پڑھے لکھے اساتذہ تھے۔ ان کو اصول تعلیم، بچوں کی نفسیات اور طریقہ تدریس کا علم نہیں تھا۔ چترال ابھی ریاست ہی تھا۔انگریزوں کی بجائے پاکستانی بیوروکریٹس ہم پر حکومت کر رہے تھے۔ چترال پولیٹیکل ایجنٹ کم وزیراعظم کے زیر اختیار تھا۔ فرق اتنا پڑا تھا کہ پرائمری تعلیم عام کرنے کی کوشش کے طور پر جہاں جہاں عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت اسکول کے لیے عمارت بنائی سرکار نے استاد مقرر کیا۔ 1950 کی دھائی میں لوگوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر جگہہ جگہہ عمارتیں کھڑی کیں۔ان میں ایک پرائمری سکول بانگ کی عمارت بھی تھی جو چھہ چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھی اور غالباً 1953-میں تعمیر ہوئی تھی۔ ان سب کے لیے استاد کا ملنا آسان نہیں تھا، اس لیے جو بھی معمولی پڑھا لکھا ہاتھ لگا استاد لگا دیا گیا۔ یہ اساتذہ چترال کے کونے کدروں میں جاکر اپنی صلاحیت کے مطابق بچوں کو پڑھانے لگے اور یوں چراغ سے چراغ جلنا شروع ہوا۔ اپنی علمی کم مائیگی کے باوجود انہوں نے چترال کی دور دراز وادیوں میں علم کی روشنی پھلانے میں رہبر کا کردار ادا کیا ۔ اگر حقیقت پسندانہ انداز میں سوچا جائے تو میرے اپنے شکوے جو پہلے بیان ہوئے ہیں، نا انصافی پر مشتمل ہیں۔ اس غربت زدہ دور میں ایک استاد کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ دس روپے ماہوار تھی۔ ان دس روپیوں کے لیے سینکڑوں میل پیدل سفر کی مسافت پر مسافر رہ کر آدمی اگر اپنے طلبہ سے کچھ مالی مدد کی امید نہ رکھے تو کیا کرے؟ اس لیے میں نے اپنے اساتذہ کو بخش دیا ہے۔ اللہ پاک سے التجا ہے کہ وہ میری گستاخی بھی معاف فرمائے جو میں نے روا رکھی ہے۔ تیسری جماعت میں آئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک دن ایک دبلا پتلا نوجواں ہمارے سکول آیا۔ معلوم ہوا کہ وہ نیا استاد ہے جو ہنزا والا استاد کی جگہہ آیا تھا۔ یہ بھی معلوم پڑا کہ نیا استاد “آٹھ جماعت پاس ہے”۔ ہمیں ایسا لگا کہ انہونی بات ہوگئی ہے۔ “آٹھ جماعت” ہمیں آسمان نظر آرہی تھی۔ استاد بھی ہم سےعمر معمولی بڑا لگ رہا تھا۔ آج کے دن ہمارے پاس اپنے والدین کو سنانے کے لیے بہت ہی موٹی خبر تھی۔ اس دن جب میں گھر پہنچا تو اپنا بستہ کندھے سے اتارنے سے پہلے امی جان کو یہ خبر سنادی، ” امی! آپ کو پتہ ہے آج ہمارے لیے نیا استاد آیا ہے، آٹھ جماعت پاس ہے” ( آٹھ کو کھینچنے کے علاوہ اپنی آنکھوں کو ان کی آخری حد تک کھولی تھی اور منہ بھی اسی حساب سے کھلا ہوگا)۔ ماں بھی حیران رہ گئی تھی۔ جب بابا کو یہ خوشخبری سنائی تو اس نے بھی تعجب کا اظہار کیا تھا۔ یہ استاد محترم سید دینار علی شاہ تھے جن کا تعلق کھوژ سے ہےاور جو آج بھی اللہ کے فضل سے زندہ سلامت ہیں۔ ایک قابل اور محنتی استاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ کافی لمبےعرصے تک بانگ میں پڑھایا اور شاگردوں کی اچھی ٹیم پیدا کی۔ ان کی محنت کی بدولت میری اردو کی نالائقی بھی رفتہ رفتہ دور ہوتی گئی ۔ میں نے تیسری جماعت اپنی قابلیت سے پاس کیا اور چوتھی میں دوسری پوزیشن میں پاس ہوا۔ پانجویں میں ہم دو ہی رہ گئے، میں اور سید حسین شاہ ، باقی دوست ایک ایک ہوکر فیل ہوتے گئے یا سکول چھوڑ گئے۔ چوتھی جماعت میں سید حسین نے ٹاپ کیا تھا جبکہ پانجویں میں میں نے اسے پیچھے چھوڑ دیا۔ پرائمری سکول بانگ میں فرمان پناہ مرحوم، ژانو خان مرحوم، شیرنواز خان، سردار خان اور جنان میرے ہم جماعت تھے۔ آج بھی جب جنان سے ملاقات ہوتی ہے تو استاد مرحوم شاہ مسلم کا یہ شعر مجھے یاد آتا ہے جو وہ کبھی کبھی از راہ تفنن سنایا کرتے تھے؎ جان من جانان من شاپِک نکی حیران من۔ سید شاہ مسلم اسلامیات کے استاد تھے۔ انتہائی آزاد طبیعت تھی ان کی اور مزاحیہ شعر کہنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ان کی کلاس میں ہمیں بھی آزادی کا موقع ملتا تھا۔ ان کی مزاح کی چاشنی آج بھی دلوں مین زندہ ہے۔اللہ پاک کو ان معفرت نصیب کرے۔ ]]>
Dear sir,
Interesting article , But i want to know what is the reason behind those teacher who are/were having just primary or middle school certificates but comparatively they are/were more intelligent than today’s SST, CT , M.ed ,B.ed etc. Being a good teacher and educationist what is you are analysis??