Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

ثقافتوں کا اختلاط

sher ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کیلیے دلہن اپنی مرضی اور پسند کی لائے۔ ماؤں کی اکثریت اپنے خاندان والوں میں بیٹے کی شادی چاہتی ہے۔ جب ماں اور باپ کی ثقافتیں مختلف ہوں تو ایسی ماں ہر صورت اپنے خاندان کی لڑکی کو ترجیح دیتی ہے۔ اگر لڑکے کے باپ کی ترجیح اپنی فیملی یا کلچر ہو تو ایک قسم کی کشمکش جنم لیتی ہے۔ ہمارے عزیزوں کا ایک ایسا خاندان ہے جس میں اس وقت تک تین کلچر یکجا ہو چکے ہیں۔ اَئیندہ وقتوں میں مزید کتنے شامل ہوں گے،یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ آجکل اس فیملی میں ایک بیٹے کی شادی ہے جس ک لیےہم سب عزیزو اقارب جمع ہوگئے ہیں۔ یہ شادی بیٹے کی پسند کی ہے۔ دلہن کا تعلق نہ ماں کے خاندان سے ہے اور باپ کی قومیت سے، البتہ چترالی سید گھرانے سے ہے جو مشہور اسمعیلی ولی اور پیر جو زندہ پیر محمد رضائے ولی کے نام سے مشہور ہیں کی اولاد ہیں۔ دلہا کی ماں کراچی کی ہیں اور باپ چترال کا جبکہ بڑی واحد بھابی تاجکستان سے ہے۔ کمال یہ ہے کہ دلہا کی دادی واخان کی تھیں۔ اس معجون نما خاندان میں ہم گزشتہ دو دنوں سے شادی کی تقریب میں شامل ہیں۔ ہم ٹھہرے نرے دیہاتی چترالی اور کٹر ثقافت پرست لوگ جو یہاں کراچی کے رسم و رواج سے مکمل نا واقف ہونے کی وجہ سے قدم قدم پر پوچھ پوچھ کر چلتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ دلہن اور دلہا دونوں چترال سے ہیں لیکن ان کا بیاہ یہاں کے رسم و رواج کے مطابق انجام پا رہا ہے۔ یہ رسوم ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ ان کی روایات کے مطابق ادائیگی تو دور کی بات ہے ہم ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکے ہیں کہ کس موقع پر کونسا لباس پہنیں،سندھی، ہندی یا چترالی؟ہم سیدھی سادھی ثقافت کے پلے بڑے لوگ یہاں کے گونا گون رسوم سے قطعی نابلد ہیں۔ اس لیے ہماری انگلی پکڑ پکڑ کر ہم سے یہ رسمیں ادا کرائی جا رہی ہیں۔ خدا کرے کہ شرمندہ ہوئے بغیر ہم اس تقریب کا بخیر اختتام کرسکیں۔ ہمیں ا ایک طرح سے فائدہ ہورہا ہے کہ ہم یہاں کے رسم و رواج کا علم حاصل کر رہے ہیں۔ کراچی والوں کو اس لحاظ سے نقصان ہو رہا ہے کہ ایک خالص چترالی جوڑی کی شادی میں چترالی رسم و رواج کی پیروی نہیں ہو رہی ہے۔ اگر یہ شادی چترالی روایات کے مطابق ہوتا تو ہمارے کراچی والے بہن بھائیوں کو کھو ثقافت سے واقفیت حاصل ہوجاتی اور ثقافتی گونا گونی کا لطف حاصل ہوجاتا۔ شاید یہ ہماری بھابی ( دلہا کی ماں) کی خواہش ہوگی کہ ان کے بیٹے کی شادی ان کی موروثی روایات کے مطابق ہو جائے۔ جس کا احترام کیا جا رہا ہے۔ سیندھی اور چترالی ثقافتوں کا اختلاط بھی اپنے اندر ایک الگ حسن رکھتا ہے جس انکار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ دلہا دلہن سے ہماری گزارش ہے کہ اپنی اولاد کو کھو ثقافت سے نا بلد نہ رکھیں۔ مذکور خاندان چترال کی نامی گرامی قوم رضاخیل سے تعلق رکھتا ہے جن کے باپ دادوں نے اپنی روایات کی پرداخت کی ہیں۔جن کی اولاد دیزگ، بریپ اور دیوانگول میں آباد ہیں۔ دلہا کا دادا علی حرمت خان چترال کے ان معزز شخصیتوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی میں پشرو کا کردار ادا کیا ہے۔ سینکڑوں سماجی اور سیاسی خدمات کے علاوہ علاقے میں تعلیم کی ابتدا اور ارتقا میں ان کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ موضع بریپ میں سکول کی پہلی عمارت ان کی سرپرستی میں تعمیر ہوئی تھی۔ ان کے بڑے فرزند علی اکبر خان وادی یارخون کے پہلے گریجویٹ اور پہلے کلاس ون افیسر ہیں جو محکمہ تعلیم کے پی کے میں طویل دور ملازمت بطور تیچر، ہیڈ ماسٹر، پرنسپل اور ڈی ای او انجام دینے کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ علی اکبر صاحب کے فرزند اسد علی خان اس علاقے کے پہلے ڈاکٹر ہیں۔ علی اکبر خان سے چھوٹا بھائی ذولفقارعلی بھی محکمہ تعلیم میں ایک سینیئر استاد ہیں اور سماجی کارکن ہیں۔ سب سے چھوٹے بھائی صمصام علی رضا سندھ ہائی کورٹ کے تجربہ کار اور کامیاب وکلا میں شامل ہیں اور ایک اچھا مقام رکھتے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا ڈاکٹر علی حسین بی ڈی ایس اور لندن سے ایم ایس ہیں جبکہ ان کی بیگم تاجکستان کے ایک معزز خاندان کی بیٹی اور اعلٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ صمصام کی ایک ہی بیٹی ہے جس نے بی ڈی ایس کیا یے۔ جس کی اس وقت شادی ہو رہی ہے، ہمارے سپہ سالار جنل رحیل کے ہم نام ، رحیل حسین خان ہیں یہ ایل ایل ایم کرچکے ہیں۔ بہت ہی برائٹ بچہ ہے۔ سول جج کا تحریری امتحان بھی پاس کر چکا ہے۔ صمصام علی اور بچوں کی ترقی کے پیچھے جس ہستی کا ہاتھ کار فرما ہے وہ پورے خاندان میں بھابی کے لقب سے مشہور ہیں اور ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ چترالی تہذیب و ثقافت کو ہم سے بہتر سمجھتی ہیں اور اس کی پیروی کرتی ہیں۔ ہماری یہ بھابی بھی اعلےٰ تعلیم یافتہ اور ریٹائرڈ بنکر ہیں۔ ]]>

You might also like
2 Comments
  1. A-r-h says

    If this article is about pluralism, then ‘pluralism’ means to accept cultural diversity with all the colors it offers and that there are many right ways to live and act which is an acceptance that leads to a peaceful community.

  2. Iqra says

    Thanks uncle for writing about diversity of our family
    And reflecting my mom culture..
    Uncle you dont have to be puzzle about our traditions,culture,dressing
    Its happiness of our family mA 🙂 that reflects us in different ways..
    And you were the part of our happiness too..
    I believe happiness has no tradition no culture no language
    Thanks uncle for your beautiful words 🙂

Leave a Reply

error: Content is protected!!