شیرولی خان اسیر
استاد کریم کی وہ آواز میرے لیے حیران کن تھی۔ ایک تو میں نے پہلے کہیں بتایا ہوگا کہ غیرت بیگ استاد نے جو مجھے انتہائی نالائق بچہ قرار دے کر میرے دل میں جو گھاو لگایا تھا، وہ مجھے برابر پوری شدت کے ساتھ دکھ دے رہا تھا۔ یارخون کی خون چوسنے والی برفانی تیز ہواوں کا مقابلہ کرکے روزانہ 8 کلومیٹر سفر کرکے پاور جانے اور گھر آجانے کی مشقت سے دوسرے مضامین میں شاید بہتری آگئی تھی، البتہ اردو کی حالت وہی پہلے والی ہی رہ گئی تھی۔ میرے ٹیوٹر صاحبآں کے پاس بھی ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ وہ مجھ جیسے حروف تہیجی کی اصل شکلوں کےعلاوہ دوسری اشکال سے ناواقف بچے کو اردو عبارت خوانی سکھا سکیں۔ آپ یقین کریں کہ میں اردو قاعدہ کے صرف الف سے ی/ے تک کے حروف بمشکل لکھ پڑھ سکتا تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے پہلی جماعت میں، میں نے ایک دو اسباق کو رٹ لیا ہو گا۔ اسی طرح دوسری جماعت میں بھی ایسے دو تین اسباق کے شروع کے حصے مجھے ز بانی یاد تھے۔ اساتذہ کے پڑھانے کا عام طریقہ یہ تھا کہ استاد کتاب لے کر جملہ جملہ پڑھنا شروع کر دیتا اور طلبہ اس کے تلفط اور ادائیگی کے مطابق بالجہر پڑھا کرتے۔ مثلاً استاد بولتا، “یہ اونٹ ہے”، پھر بچے بیک آواز بولتے، “یہ اونٹ ہے”،اس کے بعد بچے ترتیب سے باری باری سامنے کھڑے ہوکراسی طریقے سے پڑھاتے باقی طلبہ کورس میں ان کی نقل اتارتے۔ یا کوئی ایک دو لائق بچے یہ کام سر انجام دیا کرتے۔ اس تکرار سے کچھ نہ کچھ رٹ لیا کرتے تھے۔ حروف شناسی کی طرف استاد کی توجہ نہیں تھی تو چھوٹے بچے کیا خاک توجہ دیتے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ ممتحن نے مجھے انہی اسباق میں سے پڑھنے کو کہا ہو جو میں نے رٹ لیا تھا۔ اس لیے پاس ہونے کی خوشخبری مجھے ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ کہیں استاد کو غلط فہمی تو نہیں ہوئی ہے؟ میں حیران تھا کہ یہ میرا پاس ہونا کوئی خواب تو نہیں۔ جب استاد کی آواز دوبارہ اٹھی، “اے لالوجاو! تتے ریم کیہ، تو پاس ہوکیہ، بوگے م تے شیرینی انگیے”۔ تب احساس ہوا کہ یہ خواب نہیں تھا۔ روز روشن کی طرح اعلانیہ حقیقت تھی جو استاد محترم کے منہ سے ٹپک ری تھی۔ اس وقت مزید سوچنے کا موقع نہیں تھا کیونکہ استاد تاکید کر رہا تھا۔ میں نے عرض کیا،” استاد جی! کل لے آوں گا”۔ یہ ہماری روایت تھی کہ اساتذہ کے لیے ایسے موقوں پر گھرسے اچھا سا کھانا پکا کر لایا کرتے تھے جسے عرف عام میں سُرفہ کہتے ہیں۔ صرف دو ہی اساتذہ تھے، سید شاہ مسلم ہمیں اسلامیات پڑھایا کرتے۔ بڑے مرنجان و مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ مزاحیہ شعر کہنا ان کا مشعلہ سا تھا۔ مزاحیہ اشعار یا جملے بول کر ہمیں ہنسا ہنسا کے لوٹ پوٹ کردیا کرتے ( اللہ معفرت نصیب کرے) ان دو بندوں کے لیے کھانا لانا کوئی مسلہ نہیں تھا خاص کرکے “چارغیریو لالو ژاوت”، جن کو اللہ پاک نے مثالی ماں باپ عطا کیا اور ہر قسم کی نعمت سے نوازا تھا۔ استاد صاحب کہنے لگے، ” نو لا لالو جاو! ہاش شرینی نو۔ دورار مو انگیے،(ہموش اشناری فلانہ) دوکندارو سار وم کوری انگیے، چھوچی پیسہ انگیتی دوس وا” نہیں لال کے بیٹے، گھر سے نہیں فلان دوکان سے ادھار لے آو- کل پیسے لاکر اسکو ادا کروگے۔ استاد صاحب کی شیرینی میٹھی نہ تھی، اس لیے اس شیرینی نے ایک دوسری کہانی کو جنم دیا۔ اسے پھر کبھی سناوں گا۔ فی الحال میں اپنے پاس ہونے سے متعلق اپنی حیرانگی پر کچھ مزید تحقیق سے متعلق آپ کوبتانا چاہوں گا۔ میں نے سوچا شاید استاد نے میری سفارش کردی ہو یا ممکن ہے ممتحن صاحب میرے بابا کا لحاظ رکھ کر مجھے پاس کیا ہو ( حضرت اللہ جان صاحب کے والد محترم المعروف کوراغو خلیفہ کے ساتھ میرے بابا کی دوستی تھی، نیز استاد موصوف ان کے پیر کے داماد بھی تھے اور پیر اف سرغوز کے ساتھ میرے بابا کا بھائیوں جیسا تعلق بھی تھا) اس کے علاوہ یہ بھی ممکن تھا کہ بونیغ قلندر کی دعا نے اثر دکھایا ہو۔ یہ اتفاق تھا یا میری خوش بختی تھی کہ میرے امتحان کے دن سے پہلے دن بونی کے درویش جو ‘ڈمبوز گانِرو’ کے نام سے مشہور تھے اور ہمارے یہاں ‘بونیغ قلمدار’ کے نام سے پہچانے جاتے تھے، ہمارے گھر مہمان بنے تھے۔ بونیغ قلمدار سالانہ یارخون آیا کرتے اور اپنے پسندیدہ اور عقییدتمند لوگوں کے گھروں میں ایک ایک یا دو دو دن مہمان ہو جایا کرتے تھے۔ میرے ابو بھی ان کے عقیدتمندوں میں سے تھے۔ درویش سب کو “مہ پھوردو” ( میرا پودا)پکارا کرتے۔ جب کسی پر غصہ کرتے تو ” تہ شوقھیکا دریم” ( تیری رونی صورت بناونگا)۔ کھوار میں شوقھیک اس حالت کو کہا جاتا ہے جب باقاعدہ رونے سے پہلے رونے والے کےچہرے ،آنکھوں، ناک اور منہ کی جو مجموعی صورت بنتی ہے۔ قلندر کے ہاتھ میں ایک لاٹھی ہوا کرتی جس کے ایک سرے پر ایک بڑی سی گیند جڑی ہوتی جو ڈمبوز کہلاتی۔ ہم بچے ان کے اس ڈمبوز سے بہت ڈرا کرتے کہ خدا ناخواستہ قلندر نے اگر ڈمبوز سے مارا تو بھوسہ بنا دے گا۔ قلندر جب گھر میں داخل ہوتے تو ھوحق کی آواز کے ساتھ ڈمبوز کو گھر کے کسی ستوں پر مارتے تو ہیبت طاری ہو جایا کرتی۔ قلندر کا لمبا قد، لمبے بال اور میانہ قد لیکن بے ترتیب دااڑھی اوردرویشانہ لباس ہی ہمیں ڈرانے کے لیے کافی تھے اوپر سے ڈمبوز اور گرجدار زبان ہمارے خون خشک کر دیا کرتے۔ لیکن قلندر کے کسی کو مارنے کی خبر نہیں تھی۔ بونیغ قلندر کی خاطر توضع بھی اعلےٰ درجے کی ہوا کرتی۔ رات کو”چھوئے بوتی” یعنی طعام شبینہ الگ سے ہوا کرتا جس میں “ٹاربٹ”(کھوان حلوا) یا کم از کم “شوشبراٹو” (میٹھی روٹی) لازمی تھی۔ قلندر موصوف کھاتے پیتے گھروں میں ٹھہرا کرتے تھے۔ غریب لوگوں کو زحمت دینا ان کوپسند نہیں تھا۔ میں مجبوراً موضوع سے ہٹ رہا ہوں۔ اس درویش کا مختصر تعارف ضروری تھا جن کی درویشی کو بعض لوگ ڈھونگ سنجھتے تھے۔ اس خاص صبح جب میرا امتحان ہو رہا تھا، قلندر صبح سویرے رتھینی ختان میں آگئے اور آگ کے پاس بیٹھے وظیفہ کرنے اور تسبیح جابنے لگے۔ میں ناشتہ کرکے سکول روانگی کو تیار تھا۔ میری امی جان مہمانوں اور گھر والوں کے لیے ناشتہ بنا رہی تھیں۔ امی جان نے قلندر سے عرض کی کہ وہ میرے لیے دم دعا کرے تاکہ میں امتحان میں پاس ہو سکوں۔ قلندر نے فوراً درخواست مان لی اور امی جان کو گڑ لانے کو کہا۔ مان نے جٹ سے گڑ کا موٹا سا ٹکڑہ لایا۔ اب قلندر اس پر دم کرکے پھونک مارنے لگے۔ قلندر کی زوردار پھونک کے ساتھ ان کا لعاب دہن بھی بارش کے ننھے قطروں کی طرح گڑ پر برس رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہی مجھے اُبکائی آنے لگی اس تصور سے کہ مجھے یہ تھوک آلودہ گڑ کھانا پڑے گا۔ قلندر نے سات مرتبہ اس گڑ پر پھونک ماری اور ہر پہلو سے اسے شرابور کردیا۔ اس کے بعد میرے حوالے کرتے ہوئے ہدایت کی ” مہ پھوردو! ہمو پھُک پھُک کوری ژوتی انتحانو ٹیمہ کھولاوے جیما!” میں نے سر کے اشارے سے قلندر کے حکم کی تعمیل کا یقین دلایا اور باہر نکل گیا۔ اب دو باتوں میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اس گڑ کو پھینک دوں یا کھا لوں؟ دونوں کام میرے لیے ایک جیسے مشکل تھے۔ پھینکنے سے قلندر کی دعا کی بے احترامی کا گناہ ہو رہا تھا اور ممکن تھا کہ اسی وجہ سے فیل ہوجاوں۔ اسے کھانے سے صبح کا ناشتہ بھی باہر آنے کا خطرہ تھا کیونکہ قلندر کا لعاب ابھی سوکھا بھی نہیں تھا۔ یہ عقیدہ بھی تھا کہ قلندر کی دعا کوئی معمولی چیز نہیں ہوتی۔ میرے سامنے امتحان کا جو پہاڑ کھڑا تھا اسے سر کرنے کے لیے میرے پاس دوسرا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ میں نے دل کڑا کرکے اور آنکھیں بند کرکے گڑ کو دانتوں سے کترنے لگا۔ الحمداللہ کوئی نا خوشگوار حالت پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے امتحان دیا اور پاس بھی ہوگیا۔ استاد کے لیے شیرینی لانا کوئی مسلہ نہ تھا۔
(جاری ہے)