Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

میری تعلیم یافتہ بیوی

دھڑکنوں کی زبان 

محمد جاوید حیات

میری بیوی یونیورسٹی میں پڑھی ہوئی تھی ۔ بڑی سی ڈگری اس کے پاس تھی ۔ پھر امتحانات پاس کر کے استاد بن گئی تھی ۔ تعلیم یافتہ گھر میں پلی بڑتھی پر اس کو اپنی یونیورسٹی کی زندگی پر فخر تھا ۔ میرا رشتہ آیا تو میری دولت اور خاندانی اثر و رسوخ نے ان کو رشتہ دینے پر مجبور کیا ۔ میرے گھر اس کی ’’تعلیم یافتہ ‘‘ہونے کا چرچا ہوا ۔۔۔صرف میری بوڑھی کا کی نے میرے کان میں ایک بار صرف ایک بار کہا بیٹا ! تیری ہونے والی دلہن کہتی ہیں کہ ’’تعلیم یافتہ ‘‘ ہے بیٹا وہ ’’تہذیب یافتہ‘‘ بھی ہے کہ نہیں میں اس سمے گم صم ہو گیا تھا مجھے زندگی کا تجربہ نہیں تھا میں زندگی کو صرف پھولوں کی سیج سمجھ رکھا تھا ساتھ میں گورنمنٹ سکول کا پڑھا ہوا تھا ۔

وہاں پر اسلامیات کا استاد عجیب عجیب باتیں کرتاتھا ۔ کہتا ۔۔۔کس کس نے صبح کی نماز پڑھ لی ۔۔۔۔ اصل تعلیم تربیت کا نام ہے شرافت اور انسانیت کا نام ہے کہتا ۔ والدیں کی خدمت اللہ کا حکم ہے لہذا فرض ہے ۔۔کہتا ۔ کسی کا دل دکھا نا ، کسی کی بے عزتی کرنا اور جھوٹ بولنا سب سے بڑی برائیاں ہیں ۔ وہ ’’سچ ‘‘ پہ انعام اور ’’جھوٹ پہ سزا دیتا ۔۔ ہماری کلاس میں بچے بچیاں ہوتیں ۔ وہ ساری ہم جماعت بچیوں کو محاطب کر کے کہتا ۔۔۔میری بچیو! تمہاری شرافت ، تمہاری حیا ، تمہاری نرم مزاجی تمہارے زیور ہیں۔ تمہیں قیمتی زیور کی کوئی ضرورت نہیں ۔میں نے ’’تعلیم یافتہ ‘‘ کا یہی مفہوم سمجھا تھا ۔ میں ’’تعلیم ‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کو کبھی الگ نہیں کیا تھا ۔ میں نے ’’ اخلاق ‘‘ ’’کردار ‘‘ اور ’’تعلیم ‘‘ میں کبھی فرق نہیں کیا تھا ۔

میں بوڑھی کا کی کے سوال کا جواب کیا دیتا ۔۔۔رشتہ طے ہوا مجھے ’’ دولہا‘‘ بنا یا گیا ۔ جب حق مہر مقرر ہو رہا تھا ۔ تو میری ’’تعلیم یافتہ ‘‘ بیوی کی ’’تعلیم ‘‘ کا بڑا چرچا ہوا ۔ باربار کہا گیا کہ پبلک سکولوں میں پڑھی ہے ۔ وہ یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی ہے ۔ سب نے دسیوں بار کہا کہ ’’تعلیم یافتہ ‘‘ ہے کسی نے ایک بار بھی ’’تہذیب یافتہ ‘‘ نہیں کہا ۔ مجھے پتہ نہیں کیوں بوڑھی کا کی یاد آگئی ۔ مجھے حق مہر، رشتہ ، مستقبل وغیرہ کا تو ہوش نہیں تھا اتنا پتہ چلا کہ نکا ح ہوگیا ۔ تین دن تک میرے گھر میں جشن کا سماں رہا ۔ میں نے اپنی باجی اور بھابی سے پوچھا ۔۔۔’’دلہن کیسی ہے ‘‘ باجی خاموش رہی ۔ بھابی نے کہا ۔۔اچھی ہے ۔۔ لیکن آپ جیسا ’’کم گو‘‘ نہیں وہ بسیار گو‘‘ہے ۔ اور ۔۔۔پھر اس نے میری پشانی پر طویل بھوسہ دے کر کہا تم جیسا تو دنیا میں کہیں نہیں ہوگا مگر جوڑے آسماں پر بنتے ہیں میں اپنی بھابی کی گودی میں پلا بڑھا تھا ۔ پہلی ملاقات کے لئے میں نے ہزاروں سوالات اور بیسیار ممکنہ نصیحتیں سوجھی مگر جب سامنا کیا تو میں اذلی ’’گونگا ‘‘ تھا مجھے ابھی پتہ چلا کہ میں بات نہیں کر سکتاہوں نہ کسی سوال کا جواب دے سکتا ہوں ۔ میں نے ایک ’’جادونگری ‘‘ میں قدم رکھا تھا ۔ اور ’’ جادو گرنی ‘‘ نے مجھ سے میری قوت گو یائی ، عقل قوت فیصلہ ، جرات، آزادی ، مر ضی ، پسند، ناپسند، رشتے ناتے اور یہاں تک کہ میری زندگی مجھ سے چھین لی ۔اب میں اپاہچ تھا۔ لولا، لنگڑا، بہرا، گونگا۔۔۔ میری ’’تعلیم یافتہ ‘‘ بیوی کی تعلیم اس کے کام آئی تھی ۔

میری تہذیب میر اکوئی کام نہ آئی ۔ آہستہ آہستہ سارا خاندان سمجھ گیا تھا ۔ کہ میں بے بس ہوں میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا ۔ میرا ناتا خاندان سے توڑدیا گیا ۔ میں اب الگ گھر میں رہنے لگا۔ ماں صرف یاد تھی اور اس کی خدمت خواب تھا رشتے ناتے صرف فرضی کردار تھے میرے بچے ہوئے ۔جب میری بچی چھ سال کی ہوگی تو اس کو میں نے دارالعلوم لے جانے کے لئے ذھنی طور پر تیار کرتا رہا ۔ ایک دن منیٰ میری گود میں تھی اور میں اس سے دارالعلوم کی باتیں کر رہا تھا ۔ میری تعلیم یافتہ بیوی ڈیوٹی سے آئی ایسی جیسی شیرنی کچھار سے کودتی ہے۔ ایسی جیسے بادل گرجتے ہیں ۔ جیسے بجلی چمکتی ہے۔ میری تعلیم یافتہ بیوی نے میرے منہ سے لفظ دارالعلوم سنی تھی۔ اس لئے آگ بھبھوکا ہوگئی تھی۔۔۔ کیا؟ کیا تم اس کو دارالعلوم بھیجو گے ؟ میں نے اس سے بھی اونچی آواز میں کہا ۔۔۔ ہاں ہاں ۔۔۔ میں اس کو ‘‘تعلیم یافتہ ‘‘ نہیں تہذیب یافتہ بنانا چاہتا ہوں ۔ پھر اس کوگورنمنٹ سکول میں بھیجونگا۔ جہان پر اس کی اسلامیا ت کا استاد اس کو اخلاق و کردار اور تہذیب پڑھائے گا۔۔۔ وہ میری باتوں کا جواب دینا چاہی مگر میں نے چیخ کر کہا ۔۔ خاموش۔۔۔۔ اس نے روایتی انداز میں کہا۔۔۔۔۔ تم کیا کروگے ؟۔۔۔ میں نے بڑے اعتماد سے کہ میں تمہیں اپنی زندگی سے الگ کروں گا۔۔ وہ پہلی بار میرے منہ سے اپنے سوال کا نا قا بل یقین اور عجیب جواب سن کر صوفے پہ ڈھیر ہوگئی اور گم صم ہوگئی ۔۔۔ میں کمرے سے باہر آیا ۔۔ میرا ماضی میری نظروں کے سامنے گھومنے لگاوہ میری بھابی، میری ماں، میری باجی کو دی ہوئی گالیاں ، وہ گستاخیاں وہ چیخ چاہ ، وہ لڑائی جھگڑے ،وہ میرے لئے ان سب کی قربانیاں وہ میری بے عزتیاں سب میری یادوں کی سکرین پہ تیرنے لگیں۔

میں نے فورا سب کوفون کر کے کہا۔۔۔ میرے گھر پہنچ جاؤ ۔۔۔ امر جنسی ہے سب پہنچ گئے ۔۔ میری ’’ تعلیم یافتہ ‘‘ بیوی صوفے پر پڑی بسور رہی تھی ۔ میں نے اسکو اپنی زندگی سے الگ کر نے کا فیصلہ سب کو سنا دیا ۔سب چونک گئے کہیں لفظ ’’طلاق ‘‘ منہ سے نہ نکلے اس سمے میری بیوی چیخ کر میری ماں کے پیروں سے لپٹ گئی ۔۔۔۔ ماں جی میں مر جاؤ ں گی ۔۔ میری ماں نے اس کا سرا پنے پیروں سے الگ کر کے اپنی گود میں رکھا اور کہا بیٹا تم نے تعلیم ضرور حاصل کی ہے ۔مگر زندگی کا وہ پہلا سبق نہیں پڑھا جس میں تہذیب ،شرافت ،اخلاق اور کردار کا درس دیا جاتا ہے ۔رشتے ناتے نبھانے کا فارمولا پڑھاجاتا ہے۔زندگی کی حقیقت سے جانکا ری دیجا تی ہے ۔وہ پھر چیخ کر میری ماں کی گود سے سر اُٹھا کر میرے پیروں سے لپٹ گئی اور کہا آج ماں جی نے زندگی کا پہلا سبق پڑھایا ۔مجھے خد ا کے لئے معاف کر و۔۔۔۔ میری بھابی نے میری پیشانی پر طویل بوسہ دیا ۔اس کے آنسو میرے گالوں میں بہتے آنسوؤں میں شامل ہوگئے ۔میری تعلیم یافتہ بیوی نے میری ان پڑھ ماں سے زندگی کا پہلا سبق تو پڑھی مگر کاش میری زندگی کی 15 خوبصورت ترین بہاریں تباہ و برباد ہوچکی تھیں۔

You might also like
5 Comments
  1. Murad Akbar Raza says

    Totally disagree with the self proclaimed intellectual. We should and must not single out women, it is our society’ s problem at large. Please learn how to write an article and analyze a situation. Reading it is a total waste of time.

  2. Muhammad Salamat Ullah says

    A stark reality, not only our women but a large chunk of our men too behave as if uneducated in spite of being through various educational institutions. We have badly failed to accrue discipline, virtue, modesty and morality from education. In a way we have only defaced the essence of education for we become rude, disrespectful and intolerant towards others. Education seems to be counterproductive for most of the time.
    Though the writer has highlighted a typical case – quite common – yet the criticism in the comments amounts to a storm in a tea cup.
    Though the denouement is a bit abrupt in jumping to the ultimate resort of divorce which is always blameworthy, the censure in the comments blames seminaries. this is sheer unjust to condemn the moulvis altogether, it again sums to our inability to keep unbiased. Sadly, all our modern educationists have turned their cannons towards one side ignoring the primary evil of so called education. There is no wrong with education, the problem is inherently within ourselves, it is our prejudice, partiality or inability to grasp the truest sense of education that is responsible for our societal degradation.

  3. Asif Ali Khan says

    This depicts the sick mentality of the so-called writer rather nimcha mullah. The way he has tried to sum up things shows that it’s a real story. He has tried to portray himself as the grandson of some king but never realized even for a single second that his worth is no different that an illiterate, seminary cleric. He declared his wife stupid, dumbass and street woman. And his so-called love for seminaries where he wanted to send his daughter is in complete contrast of scandals at seminaries. If I were his wife I were the woman whom he ridiculed so shamefully, I would have taken Khula from him with a heavy penalty on him for disgracing a woman. It is not a matter of a single woman rather he has disgraced all the educated women. He should be sent to Afghanistan to fight hand in hand with his Taliban brethren. This shows his mentality and people like him always think that beating women and shouting on them is something which a man can do only. But in fact these women beaters are those who are not even worth calling men.

  4. Nadir Khan, Karachi says

    Of course, of course, cultural and societal values which the writer has mentioned sprout from religious seminaries and the whole world outside that four walls of the madrassa are jahil and destined to burn in the fire of hell. This graduate of madrassa turned column writer and self-proclaimed champion of tahzeeb if given an opportunity will take the nation to the stone age. It is also natural that a highly educated woman and a madrassa graduate cannot go hand in hand as such there is a day-night difference between the thinking of a parochial man and an enlightened person.

  5. sahibzada Dubai says

    THIS IS YOUR MISTAKE BECAUSE YOU ARE NOT EDUCATED AND YOUR MINDSET IS VERY DIFFERENT. AT CONCLUSION OF YOUR ARTICLE YOU PROVED THAT . VERY SORRY BUT YOU ARE WRONG.

Leave a Reply

error: Content is protected!!