Police slammed for not booking suspected stabber
چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے مضافاتی علاقے جغور میں مدثر حسین ولد شیر محمد کو اپنے گاؤں کے رہایشی نے چاقو کا وارکرکے شدید زحمی کیا تھا جسے 14 ٹانکے لگے تھے ۔ زحمی مدثر کے بھائی شکیل اور مبشر حسین کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو ظالموں نے چھریوں کے وار کرکے زحمی کیا تھا انہوں نے تھانہ چترال کا بارہا چکر لگایا اور چوبیس گھنٹوں تک پولیس سے درخواست کرتی رہی کہ وہ FIR درج کرے تاہم پولیس نے تین دن گزرنے کے باوجود بھی رپورٹ درج نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے سراسر زیادتی کی کیونکہ ایسے واقعات میں جب
مجروح (زحمی) ہسپتال میں داحل ہو تو محالف اسے قتل بھی کر سکتے ہیں اگر پولیس بروقت کاروائی کرے تو ملزمان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ مزید کسی بڑے جرم کرنے سے باز رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے ایکسیس ٹو رائٹ کا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت پولیس پابند ہے کہ وہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ بغیر کسی وقت ضائع کئے درج کرے مگر چترال پولیس کا معاملہ کچھ اور ہے۔ اس سلسلے میں جب تھانہ چترال کے ایس ایچ او اقبال کریم سے پوچھا گیا کہ انہوں نے صوبائی حکومت کی منظور شدہ قانون کی حلاف ورزی کرتے ہوئے FIR کیوں تین دنوں تک درج نہیں کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کا عمر کم ہے اسلئے ہم نے ان کے حلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔ جب پویس نے تین دن تک ملزمان کے حلاف کوئی کاروائی نہیں کی تو علاقے کے لوگوں نے معاملہ کو رفع دفع کرتے ہوئے ان کو مجروح کے والد سے معاف کروایا ۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے دروش کے ایک رہائیشی نے جو سوشل میڈیا پر اپنا پیغام دیا تھا کہ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پولیس سے کرپشن کا حاتمہ کیا ہے جبکہ چترال میں کھلے عام منشیات فروخت ہورہے ہیں اور ان کھلے عام منشیات فروشی کے حلاف پچھلے دن پاکستان پیپلز پارٹی کے سرگرم جیالا اکمل بھٹو نے احتجاج کے طور پر تین دن تک علامتی بھوک ہڑتال بھی کیا تھا۔
اگر چترال پولیس کا یہ حالت ہے جو سب سے زیادہ شریف سمجھے جاتے ہیں تو باقی اضلاع کی پولیس کی تو خدا ہی حافظ ہو۔ دروش ہی سے تعلق رکھنے والے ایک مظلوم حاندان نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ چند ماہ قبل دروش میں گھر کے واحد کفیل باپ بیٹے سمیت تین افراد کا قتل ہوا تھا جس میں ایک زحمی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں تین دن تک زیر علاج میں تھا ڈاکٹروں کے مطابق وہ ہوش و حواس میں تھا اور باقاعدہ طور پر بات چیت بھی کرسکتا تھا اور اپنا بیان بھی قلم بند کرواسکتا تھا مگر پولیس نے اپنی پولیس گردی کرتے ہوئے نہ تو ان کا بیان ریکارڈ (محفوظ قلمبند) کیا نہ صحیح تفتیش کی۔ سینیر صحافی شہریار بیگ کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس کیس میں نہایت نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے جہاں وقوعہ پیش آیا وہ پولیس تھانہ سے صرف چند فرلانگ کے مسافت پر واقع ہے مگر پولیس وہاں پانچ گھنٹے کی تاحیر سے گئی اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ پولیس نے کیوں اتنی تاحیر کردی؟ اور پولیس کو پہلے سے بتایا بھی گیا تھا کہ محالف فریق کے ارادے اچھے نہیں لگتے اور ہمیں قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر پولیس نے اس کے باوجود نہ تو ان کو پابند ضمانت کیا نہ کوئی کاروائی کی۔ متاثرہ حاندان کے اہل حانہ نے مزید بتایا کہ پولیس کے تفتیشی ٹیم نے نہایت جانبدارانہ اور غیر منصفانہ تفتیش کی تھی جس کی شکایت انسپکٹر جنرل آف پویس کو بھی کی تھی۔اور اس میں تفتیشی آفیسر رحم گل Suspend ملازمت سے معطل بھی ہوا تھا۔ اس مجرمانہ غفلت کی تصدیق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر غلام حسین نے بھی کی ہے اور انہوں نے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر کو معطل کیا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ چترال پولیس کو چاہئے تھا کہ زحمی معزز الملک کا بیان قلمبند کرکے محفوظ کرتے جو اس واقعے کا چشم دید گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ مقتولین کا بھائی تھا۔ چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے اس بات پر نہایت افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ چترال پولیس عوام کی نظروں میں ساکھ کھو چکی ہے پچھلے ماہ چند روز میں آٹھ دکانوں کے تالے توڑ کر لاکھوں روپے مالیت کی سامان چوری ہوئی تھی جبکہ صرف چند دیہات سے 18 موٹر سائکلیں چوری ہوئی تھی مگر پولیس کا کردار زیرو رہا۔ ڈپٹی کمشنر کی طرف بلائی گئی ٹاؤن ہال میں کھلی کچہری میں چترال کے ایک معزز شہری نے رکن صوبائی اسمبلی سلیم خان اور ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹرز خالد خان کے موجودگی میں بر ملا کہا کہ چترال میں منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہیں اور نوجوان نسل بری طرح نشے کی لعنت میں ملوث ہورہی ہیں مگر پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ان منشیات کے حلاف کاروائی نہیں کرتی جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ لوگ پولیس کو خوش کرتے ہیں۔ جبکہ رکن قومی اسمبلی شہزادہ افتحارالدین کی طرف سے بلائے گئے جلسے میں لوگوں نے تھانہ چترال کے ایس ایچ او پر بھاری رشوت وصول کرنے کی الزام لگایا۔ سول سوسائیٹی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس کی کارکردگی اس طرح رہی تو یہاں کے حالات بھی حراب ہوسکتے ہیں۔ چترال کے عوام نے وزیر اعلےٰ پرویز خٹک اور انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کے اس قسم کے مجرمانہ غلفت کے حلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائے تاکہ چترال کی مثالی امن بر قرار رہ سکے اور یہاں کے حالات حراب ہوکر عوام سڑکوں آنے پر مجبور نہ ہو۔ مقامی لوگوں نے چیف جسٹس صاحب سے بھی مداحلت اور کاروائی کی اپیل کی ہے۔