Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

A tricky issue

(ڈاکٹر خلیل (کینیڈا

ایک  بات جو سمجھ سے باھر ہے ، وہ یہ کہ چترال کے لوگ کیا  صرف  روشنی کے لیے اتنے بیتاب ہیں یا ان
کا بجلی سے مراد  روشنی کے علاوہ بجلی سے متعلقہ ذرایع کاروبار کو بحال کرنا اور ان کی ترقی دینا بھی مقصود  ہے?-
ایم پی اے فوزیہ صاحبہ کے بقول چترال میں  ایک ارب روپے سے پچپن(55) بجلی گھر بناتے جائیں گے – میرے ذاتی علم کے مطابق اس تعداد سے کہیں زیادہ بجلی گھر  اس سے بھی شاید زیادہ پیسے خرچ کرکے ماضی میں  بناتے جا چکے تھے – ان میں سے زیادہ تر کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے – چترال میں ایسے بجلی گھروں کی ضرورت ہے جن سے کاٹیج انڈسٹریز کو ترقی دیا جا سکے – سب سے ضروری یہ کے اس سے  ہیٹنگ کی ضروریات پوری کی جاسکے – تاکہ چترال کے صرف تین فیصد رقبے پر پہیلے جنگلات کو بچا کر چترال  کو سیلابی ریلوں سے محفوظ کیا جاسکے ، چترال کے ماحول کو محفوظ کیا جاسکے –
ایندھن کی ضرورت جو ہر گھر میں ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے لیےخاص چترال ہی میں چار سو روپے فی من لکڑی خرید کر پوری کی جارہی ہے – کوروڑ سوا کروڑ  کی محدود لاگت میں اس نوغیت کے بجلی گھر جس سے مذکورہ ضروریات پوری ہوں  تیار کرنا عقل سے بالا تر ہے –
چترال کے بڑے ندی نالوں میں ہلکی روشنی دہنے والے بجلی گھروں کا پہلے ہی تجربہ کیا جا چکا ہے – اور سب سے تشویش ناک بات یہ کہ ، چترال کی دو بڑی سیاسی پارٹیئیوں کے اس معاملے میںتحافوزات  ہیں ، ان کو پورے اعتماد میں لینا نہایت ضروری ہے – چترالیون کیلئے ان چھوٹے موٹے بجلی گھروں سے زیادہ علاقے میں  امن و اماں کو برقرار رکھنا اور اس کو مزید  فروغ دینا زیادہ اہم ہے – 
چھوٹے کام بنتے بگڑتے رہتے ہیں – چترال کے علماء کرام سے بھی ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ بھی کوئی فیصلہ کرتے وقت ماضی کے تلخ حقایق کو ضرور سامنے رکھیں – اپنے پسند کو پوری کرتے وقت دوسروں کی پسند ناپسند کو نظرانداز کرنا بھی ناانصافی ہے – چترال کا امن و امان ہمارا سب سے بڑا ورسا ہے ، ابتدا سے افتتاح تک ایک  این – جی – او  میں سپاہ سالار کا کردار ادا کرکے یا اس کو ایک فرقے کی جاگیر ثابت کرنے کی کوشش کرکے  دوسرے  این – جی – او پر انگلی اٹھا کے دوسرے فرقے کو اس کا وارث بنانا ، اور ایک ایم – پی – اے کا ایف -سی  کی نوکریوں میں دو  فرقوں کے لیے الگ الگ کوٹے مقرر کرنا چترال کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے –
مغرب میں  کم سے کم  آمدنی میں رہنے والا تیس سے پنتیس فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے ، اسی پیسے کو مختلف ملک مختلف ناموں سے غریب ملکوں کو بیرونی امداد کی مد میں بھجتے ہیں- اس پیسے کو کسی ار – ایس – پی کے باپ کی جاگیر نہ سمجھا جائے – معاشرے کے غریب تر لوگوں -کا ان پیسوں پر سب سے زیادہ حق ہے ، چاہے ان لوگوں کا تغلوقکسی بھی فرقے سے ہو – 
چترال کے حساس اداروں سے بھی گزارش ہے کہ وہ تمام غیر سرکاری اداروں پر نظر رکھیں تاکہ کوئی ادارہ  اپنی دوکان چمکانے کے لیے چترال میں فرقے بازی کا بیج نہ بوتے – چترال کے عوام و الناس کو یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ این – جی – اوز کے بجلی گھروں کی مرمت ، دیکھ بال ، وغیرہ ادارے کی زمہ  داری نہیں ہوتی – اس کے لیے مربوط اور موثر دہی تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے – جو لوگوں سے بل کی مد میں ماہوار چندہ جمع کر سکے – اور وہ رقم سے پن بجلی گھر کی مرمت، ملازمین کی تنخواہ وغیرہ کے لیے سےخرچ کرے – ایسی موثر تنظیمات جنوبی  چترال میں بغض وجوہات کی وجہ سے نہ اب تک بنی ہے نہ بنے گی – لہٰذا مزکورہ رقم سے ایک یا دو بڑے بجلی گھر حکومت  خود بنا کر ان  کو اپنے ہی  تحویل میں رکھے تو اسی میں سب کا دیرپا  فائدہ ہے – ورنہ یہ  سوا ، سوا کروڑ کے بجلی گھر آج ہست کل نیست پرسوں نابود ہوں گے – کم از کم پچھلے کئی دہایوں کا  تجربہ یہی بتا رہا ہے –
اگر میری باتوں پر یقین نہیں تو چترال کے نام پر آیا ہوا خاطر خواہ رقم ضائع کرنے  سے پہلے پرانے بجلی گھروں کا  سروے کروا کر فیصلہ کیا جاتے تو بہتر ہوگا –
 
 
]]>

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!