چترال(گل حماد فاروقی) پرویز مشرف دور حکومت میں پینے کی صاف پانی فراہم کرنے کی عرض سے لاکھوں روپے کی لاگت سے بننے والے واٹر فلٹریشن پلانٹ ز بری طر ح ناکام ہوئے۔ یہ واٹر فلٹریشن منصوبے دروش، چترال، ارندو وغیرہ کے مقامات پر بنائے گئے ہیں مگر ان کو ادھورا چھوڑ کر ٹھیکدار برادری نے لاکھوں روپے ڈسٹرکٹ کونسل کے ساتھ ملی بھگت کرکے ہڑپ کئے۔
ایک مقامی صحافی کمال عبد الجمیل کے مطابق یہ واٹر فلٹریشن پلانٹ چترال میں چودہ مقامات پر بنائے گئے ہیں ۔
ہر پلانٹ ہر تقریباً تیس لاکھ روپے (تین ملین) لاگت آئی ہے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں چترال کے محتلف مقامات عوام کو پینے کی صاف پانی فراہم کرنے کی عرض ان پلانٹ پر تیس، تیس لاکھ روپے خرچ کئے گئے مگر ان پلانٹس میں نہ تو ٹونٹیاں ہیں نہ پائپ لائن۔ نہ ان کو پانی فراہم کی گئی نہ عوام کو اس سے پانی دستیا ب ہے۔
یہ واٹر فلٹریشن پلانٹ ز ضلع اورتحصیل ناظمین کے ذریعے بنائے گئے۔ تحصیل میونسپل انتظامیہ کے دفتر سے چند قدم پر اس قسم کا ایک پلانٹ لگایا گیا ہے مگر نہ تو اس سے ابھی تک عوام کو ایک قطرہ پانی فراہم کیا گیا نہ ٹھیکدار اور محکمے سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی رقم خرچ کرکے اسے کیوں ناکام کیا گیا۔
جغور میں واٹر فلٹریشن پلانٹ پر تیس لاکھ روپے خرچ کئے گئے مگر اس کے تمام تر پانی کی ٹونٹیاں اکھاڑ ے گئے ہیں نہ اس میں پانی آیا نہ عوام کو اس سے کوئی فائدہ پہنچا۔
چند مقامی لوگوں نے ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ خیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ واٹر فلٹریشن پلانٹ TMA دفتر کے با لکل قریب ہے اور تمام افسران اس سڑک سے گزرتے ہیں مگر یہ کیوں ان لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ اتنی بڑی رقم کو خرچ کرکے اسے ادھورا کیوں چھوڑا گیا؟۔
اور ذمہ دار لوگوں سے کیوں نہیں پوچھا گیا۔ جبکہ جغور کے لوگ پینے کی پانی کیلئے ترس رہے ہیں۔
چترا ل کے سیاسی و سماجی طبقہ فکر نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کی جائے کہ چودہ مقامات پر تیس، تیس لاکھ روپے کی لاگت سے واٹر فلٹریشن پلانٹ ز کیوں ادھورے چھوڑے گئے اور یہ رقم کن لوگوں کے جیبوں میں چلی گئی۔ ان سے یہ رقم واپس لیکر سرکاری خزانے میں جمع کی جائے اور ذمہ دار لوگوں کو سزا دی جائے۔