چترال کے نہایت پسماندہ اور دور آفتادہ علاقہ اُوویر وادی کے سیلاب کے متاثرین ایک ماہ سے حکومتی امداد کے منتظر۔
چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے نہایت پسماندہ اور دور آفتادہ وادی لوٹ اویر کے سیلاب کے متاثرین ابھی تک حکومتی امداد کی راہ تکتے ہیں۔ ایک ماہ پہلے مسلسل بارشوں کے بعد اس وادی میں سیلاب نے تباہی مچائی تھی۔
سیلاب کی وجہ سے وادی کی واحد آبپاشی کا سکیم بھی بری طرح متاثر ہوا اور اس علاقے میں گندم کی کھڑی فصل کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ اس علاقے میں سیلاب کے بعد راستہ بھی مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے اور برساتی نالے میں مسلسل پانی آنے سے راستہ کٹ چکا ہے جس کے باعث لوگ اس نالے سے نہیں گزر سکتے ہیں ۔ ایمرجنسی کی صورت میں لوگ لکڑی کا تحتہ رکھ کر اسے عبور کرتے ہیں۔
رکن صوبائی اسمبلی سید سردار حسین نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرکے عوا م کو یقین دلایا کہ وہ بھر پور کوشش کریں گے کہ ان کے ساتھ سرکاری طور پر مالی امداد ہوسکے اور ان کی نقصان کا ازالہ کیا جاسکے۔
اس وادی کا سڑک اتنا حطرناک ہے جو ایک طرف پہاڑی دوسری طرف ہزاروں فٹ نیچے گہری کھائی کے اوپر سے گزرا ہے اور کمزور گاڑی اکثر اس کے چڑھائی پر نہیں چڑھ سکتا ہے۔ اس کو شش کئی گاڑیاں نیچے گرکر کئی افراد اس میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اویر کے ساتھ دوسرے دیہات کو ملانے کیلئے دریا پر لکڑی کا ایک جھولا پُل بھی ہے مگر سیلاب کی صورت میں اس پل پر سے گزرنا انتہائی حطرناک ہوتا ہے۔
راستے حراب ہونے کی وجہ سے اس جنت نظیر وادی میں اکثر گاڑیاں بھی نہیں آتی لوگ زیادہ تر پیدل سفر کرتے ہیں۔ جب بھی شہر سے کوئی گاڑی آتی ہے تو ان لوگوں کی خوشی کی انتہا ء نہیں رہتی۔ لوگ ضروری سامان گاڑیوں والوں کے حوالہ کرکے ان کی منت سماجت کرکے اسے بونی یا چترال پہنچاتے ہیں۔
اس وادی میں آتے وقت تو گاڑی آسانی سے آتا ہے مگر جاتے وقت وہ انتہائی حطرناک چڑھائی پر کئی بار آگے پیچھے ہوکر اسے عبور کرتے ہیں اور اس کو شش میں کئی گاڑیاں ہزاروں فٹ نیچے گہرے کھائی میں بھی گر جاتے ہیں۔
مقامی لوگوں نے شکایت کی کہ ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ آیا پاکستانی ہیں بھی کہ نہیں کیونکہ 1947 سے لیکر آج تک یہاں نہ تو کوئی سرکاری اعلےٰ عہدہ دار آیا ہے نہ کوئی ترقیاتی کام ہوا ہے۔
چند خواتین و حضرات نے چترالی زبانی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وادی میں حکومت کی طرف سے ابھی کوئی سہولت میسر نہیں کی گئی ہے۔
مقامی لوگ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وادی اوویر کو بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح سہولیات فراہم کی جائے او لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کیا جائے تاکہ یہ علاقہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
ایک اور خاتون نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ان کی راستے خراب ہوچکے ہیں جبکہ یہاں صحت کی کوئی سہولت میسر نہیں حاص کر خواتین جب زچگی کی بیمار ہوجاتی ہے تو ہسپتال پہنچنے سے پہلے اکثر راستے میں جاں بحق ہوجاتی ہے کیونکہ ہسپتال یہاں سے پانچ گھنٹے کے مسافت پر واقع ہے اور سڑک نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی والے ایمرجنسی میں دس ہزار روپے سے کم نہیں لیتے جبکہ یہاں کے لوگ نہایت غریب ہیں اور اتنی بڑی رقم برداشت نہیں کرسکتے۔