Oveer valley remains neglecetd
چترال کی نہایت دور آفتادہ اور پسماندہ ترین وادی لوٹ اُوویر کے لوگ تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم۔
چترال (گل حماد فاروقی) چترال کی نہایت دور آفتادہ وادی اوویر پاکستان کا نہیں بلکہ افریقہ کا کسی نہایت پسماندہ ملک کا حصہ لگتا ہے۔ یہ علاقہ چترال سے 125 کلومیٹر دور پہاڑوں کے بیچ میں واقع ہے۔ وادی کا سڑک اتنا تنگ اور حطر ناک ہے کہ کئی لوگ اس پر سفر کے دوران لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ راستہ کم از کم پانچ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔
سڑک کے ایک جانب سنگلاح اونچے اونچے پہاڑ ہیں تو دوسری طرف سیکنڑوں فٹ نیچے برساتی نالہ بہتا ہے جس میں گر کر کوئی گاڑی نہ انسان بچ سکتا ہے۔ اوویر پانچ ہزار آبادی پر مشتمل ہے مگر اس پورے وادی میں صرف ایک مردانہ ہائی سکول ہے ۔
اس وادی میں نہ تو کوئی ہسپتال ہے نہ کالج، نہ پینے کی پانی کا سکیم نہ آبپاشی کا کوئی سکیم۔ اور ابھی تک وادی موبائیل اور ٹیلفون کی سہولت بھی محروم ہے۔ ابھی تک اس وادی میں کوئی ہائیر سیکنڈری سکول تک نہیں ہے۔ لڑکیوں کیلئے صرف دو پرائمری سکول ہیں جس میں ایک استانی کسی افسر کی رشتہ دار ہونے کے ناطے سے ڈیوٹی پر نہیں آتی۔
وادی کے لوگ وقتاً فوقتاً اپنے مطالبات کی حق میں احتجاجی جلسے بھی کرتے رہتے ہیں مگر ان کا کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
ان لوگوں نے اپنے مطالبات کے حق میں مولانا محمد عمر کی صدارت میں بروم اویر میں ایک جلسہ عام منعقد کیا۔ جس سے علاقے کے عمائدین نے اظہار حیال کیا۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد اس علاقے میں کوئی حاص ترقیاتی کام نہیں ہوا ہے اور اسے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں کوئی ہسپتال نہیں ہے اور خواتین زچگی کے دوران اکثر بونی ہسپتا ل لے جانا پڑتا ہے جو یہاں سے چار گھنٹے کے مسافت پر ہے مگر سڑک کی حراب حالت کی وجہ سے ٹیکسی والے پانچ ہزار سے کم نہیں لیتے۔ اور اکثر خواتین ہسپتال پہنچنے سے پہلے پہلے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کے لڑکیاں پرائمری پاس کرنے کے بعد چترال یا بونی جاکر کسی رشتہ دار کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں تاکہ وہ مزید تعلیم حاصل کرسکے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کو نوکری نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں نہ تو کوی اخبار آتا ہے نہ موبائل، ٹیلیفون اور مواصلات کی سہولیات نہ ہونے کے وجہ سے لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ نوکری کیلئے کسی اخبار میں اشتہار آیا ہے۔
عوام نے مطالبہ کیا کہ اس سڑک کو محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے حوالہ کیا جائے تاکہ اس کو پحتہ کیا جائے اور سڑک کے کنارے دریا کی جانب حفاظتی دیواریں بھی تعمیر کرے تاکہ گاڑیاں سینکڑوں فٹ نیچے کھائی میں گرنے سے بچ سکے۔
مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس حوبصورت وادی میں کالج، ہسپتال، وٹرنری ہسپتال ک کی تعمیر کے ساتھ ساتھ یہاں کا مواصلات کا نظام بھی بہتر بنایا جائے تاکہ یہ پر فضا علاقہ جو سیاحت کیلئے بہت مشہور ہے یہ بھی ترقی کرسکے اور یہا ں کے لوگوں کو بھی بنیادی سہولیات فراہم کی جائے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے اس وادی میں آج تک کوئی میڈیا ٹیم یا کوئی صحافی نہیں آیا ہے اور اونچے اونچے پہاڑوں کے اُس پار یہ وادی نہایت خوبصورت ہونے کے باوجود بھی اس جدید دور میں تمام سہولیات سے محروم ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب برف باری ہوتی ہے تو راستہ مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے۔ یہاں نہ تو پینے کی صاف پانی دستیاب ہے نہ ہماری کھیتوں کو سیراب کرنے کیلئے آبپاشی کی نہر موجود ہے۔ موبائیل کا ٹاؤر تو لگا ہے مگر دو سالوں سے اس میں کوئی کام نہیں ہوا اور سگنل نہیں آتا۔ یہ خوبصورت علاقہ ابھی تک حکومت کی نظروں سے اوجھل ہے اور یہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔